اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
نمرود بن کنعان بن کوش بن سام بن نوح، بابل کا بادشاہ تھا۔ کچھ مؤرخین کہتے ہیں کہ وہ حام بن نوح کی نسل سے تھا۔ وہ ابراہیم (علیہ السلام) کے چچا آزر کا چچیرا اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ہم عصر تھا۔ قرآن کریم میں نمرود کا نام نہیں آیا ہے لیکن اس کے کرتوتوں کو اجمالی طور پر بیان کیا گیا ہے۔
مؤرخین نے لکھا ہے کہ "نمرود لوگوں کی نرینہ اولاد کو قتل کیا کرتا تھا، کیونکہ نجومیوں اور کاہنوں نے اس کو بتایا تھا کہ ایک بچہ عنقریب پیدا ہوگا جو بتوں کے خلاف جدوجہد کرے گا اور اس کی سلطنت کی کایا پلٹ دے گا۔ [1] نمرود نے حاملہ عورتوں کو جمع کروایا اور نرینہ بچوں کو قتل کروایا"۔ [2]
جوزجانی کے مطابق، "نمرود نے اپنی 40 سالہ حکومت کے دوران 7000 بچوں کو قتل کروایا"۔ [3]
"حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ولادت کو خفیہ رکھا گیا؛ وہ ایک غار میں پیدا ہوئے، والدہ نے بچے کو غار میں میں چھوڑا، غار کا دروازہ بند کر دیا اور خفیہ طور پر جاکر اس کی تیمارداری کرتی رہیں"۔ [4]
"نمرود یکتاپرستی کا سخت دشمن تھا اور ابراہیم (علیہ السلام) نے دعوت کا آغاز کیا تو اس نے مخالفت کی اور بت پرستی کو رواج دیا۔ وہ ایک طرف سے بت پرست تھا اور دوسری طرف سے خود خدا کا دعوی کرتا تھا"۔ [5]
ابراہیم (علیہ السلام) نے لوگوں کے جشن کے دن خفیہ طور پر بتوں کو توڑا تو انہیں نمرود کے پاس لے جایا گیا اور ابراہیم (علیہ السلام) نے اس کے ساتھ مناظرہ کرکے بت پرستی اور نمرود کی ربوبیت کو عقلی دلائل سے رد کر دیا۔ یہ مناظرہ لوگوں کی موجودگی میں ہؤا۔ خدائے متعال نے قرآن کریم میں اس مناظرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:
"أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ أَنْ آتَاهُ اللَّهُ الْمُلْكَ إِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّيَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ قَالَ أَنَا أُحْيِي وَأُمِيتُ قَالَ إِبْرَاهِيمُ فَإِنَّ اللَّهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ؛ [6]
کیا تم نے نہیں دیکھا اس [نمرود] کو جس نے ابراہیمؑ سے ان کے پروردگار کے بارے میں تکرارکی اس بنا پر کہ اللہ نے اسے سلطنت دے رکھی تھی، جب کہا ابراہیمؑ نے کہ میرا پروردگار وہ ہے جو جِلاتا اور مارتا ہے.، اس نے کہا میں جلاتا اور مارتا ہوں، تو کہا ابراہیم نے کہ اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے تُو اسے مغرب سے نکال دے۔ اس پر وہ کافر مبہوت ہوگیا اور اللہ ظالموں کو منزل مقصود تک نہیں پہنچایا کرتا"۔
قول مشہور ہے کہ نمرود نے موت و حیات پر اپنے اختیار کا دعویٰ کرکے دو قیدیوں کو قیدخانے سے نکالا ایک کو مار ڈالا اور دوسرے کو رہا کردیا اور ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا: خدا سورج کو مشرق سے نکالتا ہے، تو سچ بولتا ہے اسے مغرب سے نکال دے، چنانچہ کافر عاجز و بے بس ہوگیا۔ چنانچہ اس نے ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں پھینکا اور اللہ نے آگ کو گلستان بنایا؛ فرمایا:
"قُلْنَا يَا نَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَى إِبْرَاهِيمَ؛ [7]
ہم نے کہا اے آگ سرد ہو جا اور ابراہیم پر سلامتی رہے"۔
نمرود نے ابراہیم (علیہ السلام) کو صحیح و سالم پا کر رہا کردیا اور خدا کے لئے قربانی بھی دی لیکن ابراہیم (علیہ السلام) پر ایمان نہیں لایا۔
اللہ کی طرف سے اتمام حجت
نویں صدی ہجری کے مؤرخ میر خواند بن خاوند شاہ لکھتے ہیں:
"خدائے متعال نے نمرود کی نصیحت کے لئے ایک فرشتہ انسان کی شکل میں اس کے پاس اتارا جس نے نمرود سے کہا:
"اتنی ساری سرکشیوں اور آزار و اذیت نیز شرمناک ناکامیوں کے بعد، اب مناسب یہی ہے کہ غرور کی سوار سے اتر جاؤ اور خدائے ابراہیمؑ پر ـ جو کہ آسمانوں اور زمین کا پروردگار ہے ـ ایمان لاؤ؛ اور ظلم و ستم اور شرک و استعمار سے دستبردار ہوجاؤ؛ بصورت دیگر تمہاری مہلت اختتام پذیر ہوچکی ہے اور اگر تم نے اس روش کو جاری رکھا تو اللہ عظیم فوجوں کا مالک ہے اور اپنے کمزور ترین فوجیوں کے ہاتھوں تمہارا اور تمہاری فوج کا خاتمہ کرے گا"۔
نمرود نے مگر اللہ کے پیغام کا مذاق اڑایا اور گستاخی اور بے شرمی کے ساتھ کہا: "پوری زمین میں کسی کے پاس بھی میری فوجی قوت جتنی قوت نہیں ہے؛ اگر ابراہیمؑ کا خدا سپاہ کا مالک ہے تو کہہ دو کہ ہم جنگ کے لئے تیار ہیں"۔
فرشتے نے کہا: "اب جو تم نہیں مان رہے تو اپنی فوجوں کو تیار کرو"۔
نمرود نے تین دن مہلت مانگی اور ایک وسیع و عریض صحرا میں اپنی فوجیوں کو جمع کیا۔ اور ابراہیم (علیہ السلام) کو بلوایا، اور کہا: "یہ میری فوج ہے"۔
ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا: "عجلت نہ کرو، میرا لشکر بھی بس پہنچنے والا ہی ہے"۔
نمرود اور اس کے حوالی موالی کَیْف و غرور میں سَر مَسْت تھے اور تمسخر آمیز انداز سے قہقہے لگا رہے ہیں کہ اسی وقت مچھروں کا ایک بڑا لشکر آسمان کی طرف نمودار ہؤا اور نمرود کے لشکر پر حملہ آور ہؤا اور مچھروں کی تعداد اتنی تھی کہ ہر سپاہی کو بے شمار مچھروں کے حملے کا سامنا تھا۔
چند ہی گھڑیوں میں نمرود کا لشکر ہلاک ہوگیا۔ نمرود اپنے مستحکم قصر کی طرف بھاگا، محل میں داخل ہؤا، دروازہ بند کردیا، خوف کی حالت میں ادھر ادھر دیکھا، لیکن اسے کوئی مچھر نظر نہیں آیا تو اس نے سکون کا سانس لیا۔
فرشتہ ایک بار پھر ظاہر ہؤا اور کہا: "اب تم نے ابراہیمؑ کا لشکر دیکھ لیا، آؤ توبہ کرو اور خدائے ابراہیمؑ پر ایمان لاؤ، تاکہ نجات پا سکو۔ لیکن نمرود نے فرشتے کی خیرخواہانہ نصیحت کو لائق توجہ نہیں سمجھا"؛ چنانچہ ان ہی مچھروں میں سے ایک مچھر ایک دراڑ سے لپک کر نمرود پر حملہ آور ہؤا، اور اس کے اوپر اور نیچے والے ہونٹوں کو کاٹ لیا، اس کے ہونٹ پھول گئے، اور وہی مچھر ناک کے راستے سے اس کے دماغ تک پہنچا اور یہ مسئلہ اس کے لئے شدید درد کا سبب بنا؛ یہاں تک کہ اس نے اپنے گماشتوں سے اپنے سر پر ڈنڈے لگوانا شُروع کردیئے، جب سَر پر ڈنڈا پڑتا مچھر کاٹنا چھوڑ دیتا۔ یوں ڈنڈے پڑتے پڑتے عرصہ گذر گیا اور نمرود ذلیل و رُسوا ہو کر چیخ و پکار کے ساتھ مرگیا"۔ [8]
نمرود کی شکست قرآن کریم کے بیان میں
"وَأَرَادُوا بِهِ كَيْدًا فَجَعَلْنَاهُمُ الْأَخْسَرِينَ؛ [9]
ان [نمرودیوں] نے ابراہیم (علیہ السلام) [کے قتل اور شکست کے لئے] مکر کرنے [اور منصوبہ بنانے] کا ارادہ کیا تو ہم نے انہیں بہت زیادہ گھاٹا اٹھانے والوں میں سے قرار دیا"۔
نمرود کی شکست ایران کی مشہور شاعرہ "پروین اعتصامی" [10] کے زبانی
خواست تا لاف خداوندی زند
برج و باروی خدا را بشکند
پشهای را حکم فرمودم که خیز
خاکش اندر دیده خودبین بریز
اس نے چاہا کہ ربوبیت کی شیخی بگھار دے
خدا کے قلعے اور شہرپناہ کو ڈھانا چاہا
میں [خدا] نے ایک مچھر کو حکم دیا کہ اٹھ جا
متکبر کی آنکھ میں مٹی انڈیل دے
کلام امیرالمؤمنین (علیہ السلام) میں نمرود کی ہلاکت کی طرف اشارہ
امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے بدھ کے روز رونما ہونے والے واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"بدھ کا دن تھا جب ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں پھینکا گیا، اور ۔۔۔ [آخرکار] بدھ ہی کا دن تھا جب اللہ تعالیٰ نے ایک مچھر نمرود پر مسلط کر دیا"۔ [11]
امام جعفر صادق (علیہ السلام) کا اشارہ
امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے ایک زندیق کے ساتھ مناظرے میں مچھر اور نمرود کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
"فَأَمَّا الْبَعُوضِ وَالْبَقُّ فَبَعْضُ سَبَبِهِ أَنَّهُ جُعِلَ أَرْزَاقَ الطَّيْرِ وَأَهَانَ بِهَا جَبَّاراً تَمَرَّدَ عَلَى اللَّهِ وَتُجَبَّرَ وَأَنْكَرَ رُبُوبِيَّتَهَ فَسَلَّطَ اللَّهُ عَلَيْهِ أَضْعَفَ خَلْقِهِ لِيُرِيَهُ قُدْرَتَهُ وَعَظَّمْتَهُ وَهِيَ الْبَعُوضُ فَدَخَلَتْ فِي مَنْخَرِهِ حَتَّى وَصَلَتْ إِلَى دِمَاغِهِ فَقَتَلَتْهُ؛ [12]
جہاں تک مچھروں اور کیڑوں کا تعلق ہے تو ان کی خلقت کا ایک مقصد یہ ہے کہ انہیں پرندوں کا رزق بنایا گیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعے ایک مطلق العنان جابر [حکمران، نمرود بن کنعان] کو خوار و ذلیل کیا؛ جس نے خدا سے بغاوت کی، تکبر کیا اور اس کی ربوبیت کا انکار کیا۔ چنانچہ خدا نے اپنی مخلوق میں سے سب سے کمزور مخلوق کو اس پر طاقت بخشی کور مسلط کیا تاکہ اس کو اپنی قدرت اور عظمت دکھائے، اور وہ کمزورترین مخلوق مچھر ہے، جو اس [نمرود] کے نتھنے میں داخل ہؤا یہاں تک کہ اس کے دماغ تک پہنچ گیا، اور اسے ہلاک کردیا"۔
نمرود کی ہلاکت ابن عباس کی روایت میں
عبداللہ بن عباس کہتے ہیں:
"مچھر نے نمرود کے ہونٹ کو کاٹا، نمرود نے اسے پکڑنے کی کوشش کی، لیکن مچھر اس کی ناک کے اندر داخل ہؤا۔ اس نے اسے نکالنے کی کوشش کی لیکن مچھر اس کے دماغ میں داخل ہؤا۔ اللہ تعالیٰ نے چالیس دن تک اس [مچھر] کے ذریعے اسے آزار و اذیت میں مبتلا رکھا اور آخرکار اس نے نمرود کو ہلاک کر ڈالا"۔ [13]
آخری اور خاص نکتہ / غربت آتش نمرود سے بھی زیادہ شدید
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ: نے فرمایا:
أوْحَى اللّهُ تَعالَى إلَى إِبْراهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ خَلَقْتُك وَابْتَلَيتُك بِنَارِ نُمْرُودَ، فَلَوِ ابْتَلَيتُك بِالفَقْرِ وَرَفَعْتُ عَنْكَ الصَّبرَ فَمَا تَصْنَعُ؟ قالَ إِبْراهِيمُ: يَا رَبِّ! الفَقْرُ إِلَيَّ أشَدُّ مِنْ نَارِ نُمْرُودَ. قالَ اللّهُ تَعالَى: فَبِعِزَّتي وَجَلَالِي، مَا خَلَقْتُ فِي السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أشَدَّ مِنَ الفَقرِ؛ [14]
اللہ تعالی نے ابراہیم (علیہ السلام) کو وحی بھیجی اور فرمایا: میں نے تمہیں پیدا کیا اور آتش نمرود کے ذریعے آزمایا؛ اگر میں تمہیں صبر دیئے بغیر غربت و افلاس کے ذریعے آزما لوں تو کیا کرو گے؟ ابراہیم (علیہ السلام) نے عرض کیا: اے میرے پروردگار! میرے نزدیک غربت و افلاس نمرود کی آگ سے زیادہ شدید ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا: تو میں اپنی عزت و شوکت کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے آسمان اور زمین میں غربت سے زیادہ شدید کوئی شیئے خلق نہیں کی ہے"۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تالیف و و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
[1]۔ عبدالرحمن بن محمد بن خلدون حضرمی، العبر: تاریخ ابن خلدون، ج1، ص32۔
[2]۔ یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج1، ص22؛ طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، ج1، ص173۔
[3]۔ جوزجانی، منہاج الدین سراج (المعروف بہ منہاج سراج)، طبقات ناصری، ج1، ص27۔
[4]۔ الیعقوبی، أحمد بن إسحاق، تاریخ الیعقوبی، ج1، ص173۔
[5]۔ الشیخ الطوسی، محمد بن حسن، تفسیر التبیان، ج2، ص316؛ الفخر الرازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر، ج7، ص20۔
[6]۔ سورہ بقرہ، آیت 258۔
[7]۔ سورہ انبیاء، آیت 69۔
[8]۔ میر خواند، محمد بن خاوند شاہ، روضۃ الصفا فی سیرۃ الانبیاء والملوک والخلفاء (ط تہران، 1960ع)، ص110-111۔
[9]۔ سورہ انبیاء، آیت 70۔
[10]۔ پروین اعتصامی (4 اپریل 1907ع - 17 مارچ سنہ 1941ع) معاصر ایرانی شاعرہ ہیں ان کی شاعری کا انداز مناظرانہ تھا، ان کی نظموں کے موضوعات اور معانی والد سے ان کی گہری وابستگی۔ ان کی شاعری سے ان کے حصول تعلیم کا شوق، ظلم و جبر اور جابروں کے خلاف بھرپور جذبے، عورتوں کے حقوق کی حمایت، اور معاشرے کے محروموں اور مظلوموں سے ہمدردی کا اظہار ہوتا ہے۔ انہیں ایران کی مشہورترین خاتون شاعرہ سمجھا جاتا ہے۔
[11]۔ الشیخ الصدوق، محمد بن علی، الخصال، ص388؛ وہی مصنف، علل الشرائع، ج2، ص597۔
[12]۔ ابومنصور الطبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج علی اہل اللجاج، ج2، ص86؛ علامہ مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، بحار الانوار، ج10، ص173؛ ج12، ص37۔
[13]۔ امین الاسلام الطبرسی، فضل بن حسن، تفسیر مجمع البیان، ج2، ص169؛ علامہ مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، بحار الانوار، ج12، ص18۔
[14]۔ الشعیری السبزواری، محمد بن محمد، جامع الأخبار، (ط مؤسسۃ آل البيت عليہم السلام لإحياء التراث)، ص300؛ (قلمی نسخہ بتاریخ 1267ھ، ص109)۔
آپ کا تبصرہ